Skip to main content

یہ کھوکھا بیورو کریٹ کا ہے اور ساون کی بارش

 

میرے قارئین میں بیشتر کو بخوبی دیسی مہینوں کے نام یاد ہو گے انھیں پنجابی ماہ بھی کہا جاتا ہے  جنھے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ان ناموں کا نہیں معلوم انہیں میں بتا دیتا ہو سب سے پہلے شروع ہوتا ہے 1 چیت2ویساکھ 3 بیٹھ 4 پہاڑ 5 ساون 6 بنیادوں 7 اسو  8  کاتک  9 مغرب 10 پوہ  11 مارچ 12 پھگن ۔ بچپن میں ہماری نانی انھی مہینوں کے حساب سے چلتی تھی اور ہمیں  ہر ماہ اور اس کے نام کی خاصیت سمجھ آتی تھی جیسے ساون کا ایک خاص نام سے ہمیں  اندازہ ہو جاتا تھا کے بارشوں کا موسم شروع ہو گیا ہے اپنی تیاری کر لی جائے  ہمارے  گھروں میں اس ماہ میں  خوب احتیات کی جاتی تھی کہی کوئی چیز بارشوں کے پانی سے خراب نہ ہو جاے اور بجلی کی تاروں سے دور رہنے کی سخت تاکید کی جاتی تھی ۔ دنیا کے ہر خطے میں بارش ہوتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ انہی بارشوں کے سبب زمین پر حیوانوں کا جنم ممکن ہو سکا اگر یہ بارشیں  نہ ہو تو پھر نباتات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ساون میں تقریبا ایشیا اور یورپ کے سبھی ممالک میں بارشوں کا سلسلہ شروع  ہو جاتا ہے  ہر سال پاکستان  میں اس ماہ سیلابی  کیفیت  رھتی ہے  دریا بھی بپھر جاتے ہیں اور  کراچی  جیسے بڑے بڑے شہروں کی گلیاں بھی پانی میں  ڈبو جاتی چونکہ عوام کا ہر ایشو پریشانی سیاست زدہ ہو چکی ہے  جس کی وجہ سے بارشوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے  اور میڈیا میں ہر سیاسی جماعت ایک دوسرے پر بارش سے ہونے والے نقصانات کا الزام لگا رہی  ہوتی ہے ۔ حالانکہ دنیا کے تمام جدید شہر  بھی زیادہ بارشوں سے متاثر ہوتے ہیں ان میں انگلینڈ  چائنہ اور امریکہ بھی شامل ہیں  ۔ حالیہ بارشوں نے دارلحکومت اسلام آباد کے چند علاقوں میں سیلابی کیفیت اختیار کر لی جس سے کچھ لوگوں کا نقصان بھی ہوا لیکن اس کے علاوہ پورے اسلام آباد میں بہتر صورتحال  رہی  اور جن ایریا میں پانی اکھٹا ہوا اس کی وجہ نالوں پر چاہنہ کٹنگ کے ذریعے ناجائز تجاوزات ہے ۔ اس دفعہ  ساون سے پہلے سی ڈی اے نے  تمام نالوں  کی خصوصی صفائی کا کام کیا اور تمام سیوریج لائن کو مرمت کیا گیا جس کے لیے ہم چیئرمین سی ڈی اے کے اقدامات کو سراہتے  ہیں  ۔ سیکٹر ای الیون میں   اس سال سیلاب آنے کی وجہ اس کی پڑوس  میں آباد ہونے والے نیا سیکٹر ہے جو پنڈی سے آکر یہاں آباد ہوا ہے  جن کی مکینوں نے اپنے نالوں کا رخ ای 11 کی طرف موڑ دیا ہے شاید۔ بہرحال  اس کی تحقیقات ہونی چاہیے ۔

دوسرا رخ کچھ اس طرح ہیں کہ مہنگائی سے غریب تو پس رہے ہیں لیکن اسلام آباد کے بڑے بڑے بیورکریٹ اور دیگر اداروں کے افسران بھی غربت کی حدیں عبور کر گئے  ہیں  اور انھوں نے اب چھوٹی چھوٹی ریڑھی  اور کھوکھے لگانا شروع کر دی ہیں ۔آپ کو اچانک سے اسلام آباد میں یہ جو نئی کھوکھے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں  ذیادہ تر سرکاری افسران کے ہیں جنھوں نے مہنگائی سے تنگ آکر یہ کھوکھے  کھول لئے ہیں  اور ہر مرکز میں فٹ ہاتھوں پر قبضے کر لیں  ہیں ۔ سی ڈی اے کی ناکامی دیکھے لاکھوں روپے ٹیکس اور کرایہ دینے والے  دوکاندار کو ایک انچ جگہ نہیں دیتے لیکن ان ناجائز  قابضین کےاگے بے بس ہو جاتے ہیں  ۔ایف ٹین مرکز میں آپریشن کے دوران سی ڈی اے اہلکاروں کے ہولناک انکشافات سننے کے بعد ہم اس نتیجے پر پنچھے ہیں کہ سی ڈی اے ان لوگوں کا کچھ نہیں  بگاڑ سکتے کیوں کہ یہ کھوکھا  بیورو کریٹ کا ہے ۔ لیکن غریب کا کھوکھا گر جاتا ہے ۔





Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

How the New Pedestrian Bridge at Islamabad Murree Road Bhara Khu Can Save Lives

  How the New Pedestrian Bridge at Islamabad Murree Road Bhara Khu Can Save Lives Bhara Khu is a busy town near Islamabad, where many people use the Green Bus Metro Station to commute every day. The government has constructed a pedestrian bridge for the residents of Gilani Town and other nearby areas to cross the road safely. This bridge is also part of the Bhara Khu Bypass project, which aims to provide an alternative route to Murree, Kashmir, and Galiyat¹. However, it is unfortunate that many people are still unaware of the benefits of using this bridge and prefer to cross the road directly, risking their lives. In the past few days, two fatal accidents have occurred on this road, highlighting the need for more awareness and safety measures². We urge the IG Islamabad and SSP Traffic Police Islamabad to assign officials on both sides of the bridge who can guide the people on how to use this bridge properly. Only the administration can educate the people on the importance of this bridg

اپوزیشن عدم اعتماد میں کامیاب ہو گی

    اپوزیشن عدم اعتماد میں کامیاب ہو گی                قارئین آپ کو یہ بات شاید عجیب لگے لیکن حقیقت ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے میرے گھر میں  ٹی وی نہیں ہے اس کے باوجود میں بجلی کے بلز میں اس کی ادائیگی کر رہا ہو۔ اور ٹی وی نہ ہونے کی وجہ سیاست اور و حیات ڈراموں سے انتہائی بیزاری ہے یہ سردرد کےسوا کچھ نہیں  یہ تو آپ جانتے ہیں عملی سیاست کو خیرباد کہہ بھی  مجھے 5 سال ہو چکے۔ اب میری پوری توجہ قلمکاری اور دھندے کی طرف مرکوز ۔جب دھندے مندہ ہوتا ہے تو لفظوں کے تیر چلا کر اپنے من کا غبار  نکال باہر کرتا ہو ۔ اسی طرح فیس بک اور دیگر شوشل میڈیا پر بھی سیاسی اور مذہبی بحث سے اجتناب کی پالیسی پر گامزن رہنے کی وجہ سے بلڈ پریشر  نارمل رہتا ہے ۔ افسوس اس شوشل میڈیا کی وجہ سے آج ہم تہذیب کی دنیا سے نکل بد تہذیبی اور جھوٹ کے نئے پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں ۔ روکو ذرا صبر کرو دوبارہ پڑھو ،بہت حرامی ہو تم ، یہ ۔میں ہوں یہ پارٹی ہو رہی ہے ،مارو مجھے مارو، آلو ارجن ، کانپین ٹانگ رہی ہے، بارہ موسم ،جاپان جرمنی کی سرحدیں  اور حالیہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں  تک کا ایک بد تہذیبی کا طویل سفر ہے جو ہم قوم طے کر

ہمیں کچھ کرنا پڑے گا

بہیت برداشت کر لیا۔بہت صبر کر لیا۔بہت دیکھ لیا اب ہمیں کچھ کرنا پڑے گا 21 صدی جدید ٹیکنالوجی اور دنیا سکڑ کر سوشل میڈیا تک محدود ھو کررھے گی ھں۔ادارے اب ٹیوٹر پر ٹیوٹ کر کے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں پوری کر دیتے ھیں۔آجکل ججز بھی سوشل میڈیا میں چلنے والے ٹرینڈ سے نتائج اخز کر کے فیصلے سنا رھیں ھوتے ھیں۔لگتا ایسے ہے جیسے تمام دنیا کئ حکومتیں سوشل میڈیا کے ذریعے کنڑرول کی جارھئ ھیں۔کون ھے اس سوشل میڈیا کے پچھے؟کوی نھی جانتا بس ھر کوئ اپنی لائف کو سوشل میڈیا کے ذیراثر گزار رھا ھے۔چاے والا سوشل میڈیا کے ذریعے راتوں رات لاکھوں دلوں کی ڈھڑکن بن جاتا ھے اور کروڑوں دلوں کی دھرکن میاں نوازشریف صادق اور امین نہ رھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کو روس نے سوشل میڈیا کے ذریعے امریکہ کا صدر منتخب کروا دیا۔یہ سب حقائق اس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا ب گلوبل ازایشن سے بھئ نکل کر صرف سوشل میڈیا کی فریبکاریوں تک محدود ھو گی ھے۔انتہائی صبر آزما طویل عرصہ تک خاموشی کے بعد دوبارہ سے لکھنے کا سوچا اس دورانیہ میں سوشل میڈیا کو سمجھنے کی کوشش بھی کی لیکن میرا ذھین بھی پاکستان کے ان لاکھوں نوجوانوں کی طرح بس وہی سوچنے سمجھنے