Skip to main content

اسلام آباد کے تاجر اور غریب کی آہ

 الکیشن کے بعد ایف ٹین مرکز میں یونین کا قیام خوش آئندہ ہیں۔ مارکیٹ یونین کے الکیشن تاجروں کے لیے ایک کھیل کی حثیت رکھتا ہے جسے کے انعقاد سے چند دن کے لیے تاجر بھی کسی ذہنی اور جسمانی سرگرمی میں اجتماعی طور پر حصہ لیتے ہیں کرونا میں لاک ڈاون کے بعد اسلام آباد کے تقریبا ہر مرکز میں الیکشن کی گھما گھما رہی گو کہ اس دفعہ کرونا ایس او پیز کا مکمل خیال رکھا گیا اور کوئی بڑے اجتماع نہیں کیے گئے ان مشکل حالات میں بھی تاجروں کے حوصلوں اور لگن کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ دوستوں قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان ایمان اتحاد اور تنظیم کے بنیادی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی صفوں کو مظبوط کیا جا سکتا ہے لیکن افسوس موجودہ حالات میں اسلام آباد کے تاجروں کا نمائندہ اداراہ تقسیم رکھوں اور تاجروں کے حقوق پر قبضہ جمائے رکھو کی پالیسی پر گامزن نظر آرہا ہے جبکہ اس ادارے کا کام تاجروں کے حقوق کا تحفظ کرنا اور حکومتی اداروں سے انھیں ریلیف حاصل کر کے دینا ہے۔ اپنے قیام سے لئے کر آج تک اسلام چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا ادارہ چھوٹے تاجروں کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رھا ہے سوائے چند بڑے انڈسٹریلز کو فائدہ پنچہانے کے۔ اس کے علاوہ ٹریڈرز ایکشن کمیٹی کی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں کا قصہ احوال پھر کسی دفعہ کے کیسے مالکان کے ساتھ سازباز کر کے دوکانیں خالی کروای جاتی رہی اور مال بنائے جاتے رہے ہو سکتا ہے میری یہ باتیں بہت سے تاجروں کو ناگوار گزرے ان سے پیشگی معذرت خواہ ہوں بہت سے تاجر لیڈر نیک نیتی کے ساتھ سراسر خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اور دن رات تاجروں کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔اور میں سب کی دل سے عزت کرتا ہو۔لیکن تمام ثبوتو اور گواہ کی بیانات کے بعد تاجر برادری یہ کہنے پر مجبور ہیں(ساڈا حق ایتھے رکھ)۔

خیر جئے سانو ساڈا حصہ نہ ملیا تے اسی وی چپ نہیں رہنا ۔
مسئلہ کچھ اور تھا بات کہا سے کہا نکل گی یہ قلم بھی قابو سے باہر ہو گئی۔ ہم ایف ٹین مرکز کی یونین کے اقدامات سپیشلی چیئرمین طاہر عباسی صاحب کی کاوشوں کو سراہتے ہیں جنھوں نے مرکز میں سے گداگرو کا مکمل صفایا کرا دیا پارکنگ کے مسائل کو بھی حل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں سکیورٹی کے لیے موثر انداز میں چاک و چوبند گارڈز دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا اور ترقیاتی کاموں کےڈھیر وہ بھی چند ماہ میں آگےآگے دیکھتا جا بچہ جمہورا واہ۔ دیگر مراکز کے نمائندوں کو چاہیے ہیں کہ وہ ایف ٹین مرکز کی تقلید کرتے ہوئے کام کرے۔ میں جناب طاہر عباسی اور معزز یونین کو درخواست کرو گا کہ مرکز میں پچھلے کئی سالوں سے چند انتہائی غریب اور متوسط طبقے کے لوگ گاڑیاں دھو کر یا پھر جوتے پالش کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پال رہے ہیں ان کے روزگار کو ختم نہ کیا جاے اور عاجزانہ تجویز ہے کہ فوری طور پر ان کے لیے پروگرام بنایا جائے جیسے (ڈیہاڑی سب کا حق) نام رکھ کر رجسٹرڈ کیا جائے اورانھیں کارڈز بنا دے جاے۔ یہ لوگ فاقوں پر مجبور ہو چکے ہیں ایسا نہ ہو مرکز کو کسی غریب کی بدعا لگ جائے ۔
یاد رکھئے رزق دینا اللہ کا کام ہے۔اور ھمیں اسے روکنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین
ملک زبیر



Comments

Popular posts from this blog

How the New Pedestrian Bridge at Islamabad Murree Road Bhara Khu Can Save Lives

  How the New Pedestrian Bridge at Islamabad Murree Road Bhara Khu Can Save Lives Bhara Khu is a busy town near Islamabad, where many people use the Green Bus Metro Station to commute every day. The government has constructed a pedestrian bridge for the residents of Gilani Town and other nearby areas to cross the road safely. This bridge is also part of the Bhara Khu Bypass project, which aims to provide an alternative route to Murree, Kashmir, and Galiyat¹. However, it is unfortunate that many people are still unaware of the benefits of using this bridge and prefer to cross the road directly, risking their lives. In the past few days, two fatal accidents have occurred on this road, highlighting the need for more awareness and safety measures². We urge the IG Islamabad and SSP Traffic Police Islamabad to assign officials on both sides of the bridge who can guide the people on how to use this bridge properly. Only the administration can educate the people on the importance of this bridg

اپوزیشن عدم اعتماد میں کامیاب ہو گی

    اپوزیشن عدم اعتماد میں کامیاب ہو گی                قارئین آپ کو یہ بات شاید عجیب لگے لیکن حقیقت ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے میرے گھر میں  ٹی وی نہیں ہے اس کے باوجود میں بجلی کے بلز میں اس کی ادائیگی کر رہا ہو۔ اور ٹی وی نہ ہونے کی وجہ سیاست اور و حیات ڈراموں سے انتہائی بیزاری ہے یہ سردرد کےسوا کچھ نہیں  یہ تو آپ جانتے ہیں عملی سیاست کو خیرباد کہہ بھی  مجھے 5 سال ہو چکے۔ اب میری پوری توجہ قلمکاری اور دھندے کی طرف مرکوز ۔جب دھندے مندہ ہوتا ہے تو لفظوں کے تیر چلا کر اپنے من کا غبار  نکال باہر کرتا ہو ۔ اسی طرح فیس بک اور دیگر شوشل میڈیا پر بھی سیاسی اور مذہبی بحث سے اجتناب کی پالیسی پر گامزن رہنے کی وجہ سے بلڈ پریشر  نارمل رہتا ہے ۔ افسوس اس شوشل میڈیا کی وجہ سے آج ہم تہذیب کی دنیا سے نکل بد تہذیبی اور جھوٹ کے نئے پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں ۔ روکو ذرا صبر کرو دوبارہ پڑھو ،بہت حرامی ہو تم ، یہ ۔میں ہوں یہ پارٹی ہو رہی ہے ،مارو مجھے مارو، آلو ارجن ، کانپین ٹانگ رہی ہے، بارہ موسم ،جاپان جرمنی کی سرحدیں  اور حالیہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں  تک کا ایک بد تہذیبی کا طویل سفر ہے جو ہم قوم طے کر

ہمیں کچھ کرنا پڑے گا

بہیت برداشت کر لیا۔بہت صبر کر لیا۔بہت دیکھ لیا اب ہمیں کچھ کرنا پڑے گا 21 صدی جدید ٹیکنالوجی اور دنیا سکڑ کر سوشل میڈیا تک محدود ھو کررھے گی ھں۔ادارے اب ٹیوٹر پر ٹیوٹ کر کے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں پوری کر دیتے ھیں۔آجکل ججز بھی سوشل میڈیا میں چلنے والے ٹرینڈ سے نتائج اخز کر کے فیصلے سنا رھیں ھوتے ھیں۔لگتا ایسے ہے جیسے تمام دنیا کئ حکومتیں سوشل میڈیا کے ذریعے کنڑرول کی جارھئ ھیں۔کون ھے اس سوشل میڈیا کے پچھے؟کوی نھی جانتا بس ھر کوئ اپنی لائف کو سوشل میڈیا کے ذیراثر گزار رھا ھے۔چاے والا سوشل میڈیا کے ذریعے راتوں رات لاکھوں دلوں کی ڈھڑکن بن جاتا ھے اور کروڑوں دلوں کی دھرکن میاں نوازشریف صادق اور امین نہ رھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کو روس نے سوشل میڈیا کے ذریعے امریکہ کا صدر منتخب کروا دیا۔یہ سب حقائق اس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا ب گلوبل ازایشن سے بھئ نکل کر صرف سوشل میڈیا کی فریبکاریوں تک محدود ھو گی ھے۔انتہائی صبر آزما طویل عرصہ تک خاموشی کے بعد دوبارہ سے لکھنے کا سوچا اس دورانیہ میں سوشل میڈیا کو سمجھنے کی کوشش بھی کی لیکن میرا ذھین بھی پاکستان کے ان لاکھوں نوجوانوں کی طرح بس وہی سوچنے سمجھنے