Skip to main content

یہ موسم اور بھاررت

آج پھر بارش۔پچھلے کالم میں بھی اس کا ذکر اور چند خوبصورت لمحوں کی یاد تھی جن لوگوں کو اسلام آباد کی فضاوں سے پیار ھے ان کے لیے کھیں اور جینا مشکل ھو جاتا ھے۔اور جو نھی جانتے ان کے لیے فروری کی بارش کچھ عجیب سی لگے گی۔اربن ڈویلپمنٹ کے تحت کئ سالوں میں لاکھوں درخت کاٹے گئے۔اور بیوقوفوں نےاس کے بدلے سعودی کجھروں کے درخت یہاں لگانے کے لئے اربوں روپے لوٹا دے۔ اور اب یہ بہارے واپس آرھی ھیں تو اس کے پچھے عمران خان کی محنت اور ویثزن ھیں جس کاساتھ میں پچھلے انیس سالوں سے عمران خان کا دے رھا ھوں۔یاد دلا دوں مشرف دور میں مری ایکسپرس کے منصوبے کے دوران لاکھوں درخت کاٹے جانے کی پورے ملک سے صرف عمران خان نے مخالفت کی تھی اور دوسرا شخص میں تھا۔ اور آج ھم پورے ملک میں اربوں درخت لگا رھیں جس کی وجہ سے ھماری آنے والی نسلیں پیور فضاوں میں سانس لیے پائے گی۔آپ خود محسوس کرے عمران خان کو اس ملک کی کے بچوں سے کتنا پیار ھے پرائم منسٹر بنتے ھی اپنی پھلی تقریر میں ڈاکڑروں کے ایکسرے اٹھاے عوام کو ان کی اولادں کے بارے میں سمجھا رھا تھا۔ اسے پاک بھارت تعلقات امریکہ چین یا IMF کی فکر نہی تھی بس اسے غم تھا تو ھماری آنے والی نسلوں کا تھا اسے کو کہتے ھیں صیح معانی میں سچا لیڑر دوستوں بات کہاں سے کہاں نکل گی دراصل میں سچ کو سچ جھوٹ کو جھوٹ کہنے والے قبیلہ سے تعلق رکھتا ھوں ۔ھر دور کے حکمراں کے ماضی اور حال کو پرکھتے ھوں ان کے اچھے برے فیصلوں کی تعریف اور تنقید کا پورا حق بھی رکھتا ھوں اور کھل کر کہو گا کے عمران خان کی سوچ اور ویژں اس ملک کی بھلائی کے لیے ھیں۔اور ھمیں اس کا ساتھ دینا چاھے۔اگر پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم ھو جائے ۔اگر پورا ملک سرسبز وشاداب ھو جاے تو اگر انصاف سب کے لیے ایک ھو جائے تو یہ وہ سب کام ھیں جو عمران خان کرنا چاھتا ھے۔بارحال انڈیا ایک بار پھر پاکستان کی سالمیت کے خلاف دراندازی کر رھا ھے۔ ھمیشہ کی طرح وہ بھول بھی جاتا ھے کے محمد بن قاسم کے ساتھ جو جانباز بریصغیر میں آے تھے ان کی ااولادے ھی اس ملک پاکستان کی حفاظت کر ھی ھیں۔کوئی ماں کا لال پاکستان کی طرف گندی آنکھ سے نھی دیکھ سکتا ھم اپنے دشمن کو ریز ریز کر دے گے۔ پاکستان کی افواج پوری دنیا کی فوجوں سے ذیادہ طاقتور ھے۔اور ھمارا سالار عمران خان ھے۔ابہندد کو واپس کر کے بھارت کو ایک معوقہ اس لئے دیا ھے۔ کہ سوچ لو۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

How the New Pedestrian Bridge at Islamabad Murree Road Bhara Khu Can Save Lives

  How the New Pedestrian Bridge at Islamabad Murree Road Bhara Khu Can Save Lives Bhara Khu is a busy town near Islamabad, where many people use the Green Bus Metro Station to commute every day. The government has constructed a pedestrian bridge for the residents of Gilani Town and other nearby areas to cross the road safely. This bridge is also part of the Bhara Khu Bypass project, which aims to provide an alternative route to Murree, Kashmir, and Galiyat¹. However, it is unfortunate that many people are still unaware of the benefits of using this bridge and prefer to cross the road directly, risking their lives. In the past few days, two fatal accidents have occurred on this road, highlighting the need for more awareness and safety measures². We urge the IG Islamabad and SSP Traffic Police Islamabad to assign officials on both sides of the bridge who can guide the people on how to use this bridge properly. Only the administration can educate the people on the importance of this bridg

اپوزیشن عدم اعتماد میں کامیاب ہو گی

    اپوزیشن عدم اعتماد میں کامیاب ہو گی                قارئین آپ کو یہ بات شاید عجیب لگے لیکن حقیقت ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے میرے گھر میں  ٹی وی نہیں ہے اس کے باوجود میں بجلی کے بلز میں اس کی ادائیگی کر رہا ہو۔ اور ٹی وی نہ ہونے کی وجہ سیاست اور و حیات ڈراموں سے انتہائی بیزاری ہے یہ سردرد کےسوا کچھ نہیں  یہ تو آپ جانتے ہیں عملی سیاست کو خیرباد کہہ بھی  مجھے 5 سال ہو چکے۔ اب میری پوری توجہ قلمکاری اور دھندے کی طرف مرکوز ۔جب دھندے مندہ ہوتا ہے تو لفظوں کے تیر چلا کر اپنے من کا غبار  نکال باہر کرتا ہو ۔ اسی طرح فیس بک اور دیگر شوشل میڈیا پر بھی سیاسی اور مذہبی بحث سے اجتناب کی پالیسی پر گامزن رہنے کی وجہ سے بلڈ پریشر  نارمل رہتا ہے ۔ افسوس اس شوشل میڈیا کی وجہ سے آج ہم تہذیب کی دنیا سے نکل بد تہذیبی اور جھوٹ کے نئے پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں ۔ روکو ذرا صبر کرو دوبارہ پڑھو ،بہت حرامی ہو تم ، یہ ۔میں ہوں یہ پارٹی ہو رہی ہے ،مارو مجھے مارو، آلو ارجن ، کانپین ٹانگ رہی ہے، بارہ موسم ،جاپان جرمنی کی سرحدیں  اور حالیہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں  تک کا ایک بد تہذیبی کا طویل سفر ہے جو ہم قوم طے کر

ہمیں کچھ کرنا پڑے گا

بہیت برداشت کر لیا۔بہت صبر کر لیا۔بہت دیکھ لیا اب ہمیں کچھ کرنا پڑے گا 21 صدی جدید ٹیکنالوجی اور دنیا سکڑ کر سوشل میڈیا تک محدود ھو کررھے گی ھں۔ادارے اب ٹیوٹر پر ٹیوٹ کر کے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں پوری کر دیتے ھیں۔آجکل ججز بھی سوشل میڈیا میں چلنے والے ٹرینڈ سے نتائج اخز کر کے فیصلے سنا رھیں ھوتے ھیں۔لگتا ایسے ہے جیسے تمام دنیا کئ حکومتیں سوشل میڈیا کے ذریعے کنڑرول کی جارھئ ھیں۔کون ھے اس سوشل میڈیا کے پچھے؟کوی نھی جانتا بس ھر کوئ اپنی لائف کو سوشل میڈیا کے ذیراثر گزار رھا ھے۔چاے والا سوشل میڈیا کے ذریعے راتوں رات لاکھوں دلوں کی ڈھڑکن بن جاتا ھے اور کروڑوں دلوں کی دھرکن میاں نوازشریف صادق اور امین نہ رھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کو روس نے سوشل میڈیا کے ذریعے امریکہ کا صدر منتخب کروا دیا۔یہ سب حقائق اس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا ب گلوبل ازایشن سے بھئ نکل کر صرف سوشل میڈیا کی فریبکاریوں تک محدود ھو گی ھے۔انتہائی صبر آزما طویل عرصہ تک خاموشی کے بعد دوبارہ سے لکھنے کا سوچا اس دورانیہ میں سوشل میڈیا کو سمجھنے کی کوشش بھی کی لیکن میرا ذھین بھی پاکستان کے ان لاکھوں نوجوانوں کی طرح بس وہی سوچنے سمجھنے